آر ايس يو نے لڑکیوں کے وظیفوں کی آن لائن تصدیق کے لیے ایک ویب لنک شیئر کیا۔ اب ہر کوئی اپنے بچے کا وظیفہ موبائل پر چیک اور تصدیق کر سکتا ہے لنڪ چيڪ ڪرڻ لاء ھتي ڪلڪ ڪريو
یہ برسوں پرانی بات ہے کہ شاہی دور میں بادشاہ کا ایک بستی کے قریب سے گزر ہو رہا تھا کہ اسے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیں۔ بادشاہ کو بہت سے کتوں کا ایک ساتھ بھونکنا انتہائی ناگوار گزرا اور اُس نے اپنے وزیر سے اس بابت دریافت کیا۔وزیر بادشاہ کے غصے کو فوراً سمجھ گیا.اور اُس نے بادشاہ کی سخاوت کے پیش نظر عرض کی، بادشاہ سلامت! یہ کتے بھونک نہیں بلکہ بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔ بادشاہ کی سخاوت اور دریا دلّی کے چرچے دور دور تک پھیلے ہوئے تھے اس لئے کتوں کا بھوکا رہنا وہ اپنی توہین سمجھتا تھا۔ اُس نے افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ پورے شہر میں منادی کرادو کہ تمام لوگ اپنے کتے لے کر دربار آئیں اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔وزیر نے بادشاہ کے حکم کی بجا آوری کرتے ہوئے پورے شہر میں یہ اعلان کرا دیا کہ لوگ کتے لے کر دربار میں آئیں۔ اگلے روز بادشاہ نے تمام کتوں کے لئے انتہائی اعلیٰ قسم کا کھانا تیار کروایا۔ وقت کی پابندی کے پیش نظر تمام لوگ کتوں کو لا چکے تھے۔ اب کھانا تیار ہو چکا تھا اور کتوں کے لئے رنگ برنگے کھانے دسترخوان پر سجا دئے گئے تھے لیکن جب کتوں کو کھانے پر چھوڑا گیا تو تمام کتے ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑے۔ کسی کتے کا پاؤں دوسرے کا منہ، کسی کی گردن دوسرا کتا دبوچے ہوئے ہے، کوئی کتّا دوسرے کی دُم کاٹ رہا ہے تو کوئی کان چبا رہا ہے۔کتوں کے ساتھ ساتھ دربار اور دسترخوان بھی خون سے لہو لہو ہو چکے تھے۔ بادشاہ حیران تھا کہ اتنے لذیذ اور عمدہ کھانوں کے ہوتے ہوئے کتّے آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کا بدن کیوں نوچ رہے ہیں؟اُس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے وزیر سے دریافت کیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وزیر نے سہمے ہوئے عرض کی، بادشاہ سلامت! یہ کتے ہیں اور اپنا کتاپن دکھا رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان کی عادت اور فطرت میں شامل ہے اور یہی کتا پن کی اصل پہچان ہے۔انسان کی جو بُری عادات اس کی زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں اُن میں سے ایک کتاپن بھی ہے۔جسے نفس پرستی کا عنوان دیا جاسکتاہے ۔ بظاہر یہ ایک ایسی بیماری ہے جسے ڈاکٹر بھی سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں لیکن اس بیماری کی تشخیص کا پتہ اُس وقت چلتا ہے جب سیمیناروں، مذاکروں ، کانفرسوں اور دوسری قسم کی تقریبات کے بعد کھانا کھلتا ہے۔ یہاں تک کہ لوگ تقاریر سننے کے بجائے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ چند منٹوں میں کشتی کے سارے دائو پیچ، جوڈو کراٹے، ہر طرح کی زور آزمائی سپیڈوں سے جاری ہو جاتی ہے اور تاثر یہ مل رہا ہوتا ہے جیسے ان لوگوں کو آج ہی کھانے کو ملا ہے حالانکہ قسمت میں جو لکھا ہے وہ انسان کو مل کر ہی رہتا ہے اور قسمت کا لکھا انسان ہر صورت کھاتا ہے۔کھانا ضرور کھانا چاہئے مگر انسانوں کی طرح
https://www.youtube.com/c/ZubairAhmedDeho۔
Comments
Post a Comment